تحریر: محمد جواد حبیب
حوزہ نیوز ایجنسی । ہم روز انہدام جنت البقیع پر عالم اسلام کے تمام مسلمانوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتا ہیں۔کیا انہدام جنت البقیع کا مسئلہ کسی خاص گروہ سے مخصوص ہے ؟ کیا یہ صرف شیعوں سے مخصوص ہے ؟ یا ہر محب اہل ابیت علیہم السلام سے مربوط ہے ؟ بعض اسلامی دانشوروں کے بقول " انہدام جنت البقیع کا مسئلہ بھی روز قدس کی طرح صرف شیعوں سے مخصوص نہیں بلکہ یہ عالم اسلام سے مربوط ہے"۔تاریخ بتاتی ہے کہ وہابیوں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کرکے وہاں موجود قبرستان بقیع اور اس پر بنائے گئے مختلف روضوں کو خراب کر دیا تھا۔ ان بارگاہوں میں امام حسنؑ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے مزارات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بعض اعداد وشمار کے مطابق ہزاروں صحابی اس مقدس زمین میں مدفون ہیں، ان میں سب سے پہلے نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چار معصوم اولاد ؛ حضرت امام حسن بن علی ابن ابی طالب علیھم السلام، حضرت علی ابن حسین سید ساجدین امام زین العابدین علیھماالسلام، حضرت محمد ابن علی الباقر علیھما السلام، اور حضرت جعفر ابن محمد الصادق علیھما السلام بھی اس ارض مقدس میں مدفون ہیں۔ ان چار معصوم اماموں کی قبور ایک ساتھ ہیں، ان کے علاوہ بھی بہت اہم اور بڑی شخصیات بھی وہاں مدفون ہیں جیسے حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرزند ابراہیمؑ، حضرت محمد بن حنفیہؓ، حضرت حسن بن حسنؑ بن علیؑ، حضرت عقیلؓ بن ابی طالب حضرت عبداللہ بن جعفر طیارؑ، حضرت علیؑ کی زوجہ ام البنین فاطمہ ؓالکلابیہ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سارے ابتدائی اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے حضرت عثمان بن مضعونؓ، حضرت سعد بن معاذؓ، اسی طرح تمام ازواجؓ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبروں کو(سوائے ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؑ کی قبر جو جنت المعلیٰ مکہ میں موجود ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓبنت حارث کی قبر جو کہ وادی سرف مکہ مکرمہ سے ۱۵ کلومیٹر کے فاصلہ پر شمال میں مدینہ منورہ کی طرف میں موجود ہے )بھی اس کے ساتھ ملحق کیا گیا ہے۔ اسی طرح بقیع میں پہلے صحابی حضرت اسعد بن زرارہ انصاری اور آخری صحابی سہل بن سعد الساعدی کی قبریں بھی موجود ہیں۔ پیامبر فرمایا کرتے تھے" کہ مجھ پر وحی آئی ہے کہ میں اس قبرستان میں جاوں اور مرحومین کے لئے دعا کروں"۔تاریخ گواہ ہے کہ وہابیوں کے ہاتھوں جنت البقیع دو بار تخریب ہوئی؛ پہلی بار سنہ 1220ھ میں اور دوسری بار سنہ 1344ھ میں۔ یہ کام انہوں نے مدینہ کے 15 مفتیوں کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے انجام دیا جس میں قبور پر بارگاہیں بنانے کو بدعت قرار دیتے ہوئے ان کی تخریب کو واجب قرار دیا تھا۔ اس بنا پر شیعیان جہان ہر سال 8 شوال کو “یوم انہدام جنۃ البقیع” مناتے ہوئے اس کام کی پر زور مذمت اور سعودی عرب کی موجودہ حکومت سے اس قبرستان کی فی الفور تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں۔
شیعہ علماء نے جنت البقیع کے انہدام پر احتجاج اور اس واقعے کی مذمت کے علاوہ اس پر مختلف کتابیں بھی لکھی ہیں جن میں مذہبی مقامات کی تخریب کے سلسلے میں وہابیوں کے نظریات پر تنقید کرتے ہوئے وہابیوں کو مذہبی نظریات کی بنیاد پر مذہبی مقامات تخریب کرنے والا پہلا گروہ قرار دیئے ہیں۔ من جملہ ان کتابوں میں سید محسن امین کی کتاب کشف الإرتیاب اور محمد جواد بلاغی کی کتاب دعوۃ الہدی قابل ذکر ہیں۔
وہابیت کیا ہے اور اس کے عقاید کیا ہیں؟
انہدام جنت البقیع کو سمجھنے کے لئے وہابیوں کے عقاید کا جاننا بہت ضروری ہے وہابیت ایک تاریک وسیاہ فکر رکھنے والا فرقہ ہے جو خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا اعتقادات اور تبلیغات پر ایمان رکھتا ہے، اس کی بنیاد اور ترویج ایسے لوگوں نے رکھی اور جو کسی بھی صورت میں دین مقدس اسلام کی بھلائی اور خیرخواہی نہیں چاہتے تھے، انہوں نے اپنی فقہی مسائل اور طرز عمل میں کتاب الٰہی،اور سیرت وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انحراف کیا، ایسے راستوں کا انتخاب کیا جس میں اپنی رائے اور فقہ سے اختلاف رکھنے والے باقی مسلمانوں کی تکفیر، قبروں کا انھدام، معصوم لوگوں کے سروں کو قطع کرنا، فصلوں اور نسلوں کو ختم کرنا جیسے دہشت اور وحشت پر مشتمل عقائد پائے جاتے ہیں اس کی واضح مثال آپ طول تاریخ میں خاص کر عصور متاخرہ اور حالیہ سالوں میں مشاہدہ کرسکتے ہیں، ان لوگوں نے اقوام عالم میں اسلام کا ایک مسخ شدہ چہرہ پیش کیا اور ہر طرح سے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ زمان حال میں اگر ان کی تخریبی کاروائیوں اور انسانیت سوز مظالم کو ملاحظہ کیا جائے تو ان کے افکار اور عقائد بڑی آسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔
انہوں نے سر عام اپنے عقیدے سے اختلاف رکھنے والوں کا قتل عام کیا، ان کے گھروں کو مسمار، انبیاء کرام علیھم السلام اور صلحاء کےمقدس مقامات کو منھدم، بے گناہ مجبور ومقہور خواتین کو اسیر، اور اسیروں کو زندہ جلانا جیسے مظالم کی انتہا کردی، جو دین اسلام کے مسلمہ اصولوں جیسے عفو درگزر، رحم، شفقت، احترام انسانیت، محبت واخوت وغیرہ کے سراسر خلاف تھے، ان تخریبی کاروائیوں کے ذریعے دین مقدس اسلام کے امن وآشتی اور محبت و احترام پر مبنی تعلیمات اور اصولوں کو غیر مسلمانوں کی نگاہ میں مشکوک قرار دیدیا اوران تمام تخریبی اور دہشت گردی کے جواز کے لیے دلیل کے طور شرک وکفر کا سہارا لیا، اور یہ اعلان کیا کہ توحید صرف وہی ہے جو ان کی سمجھ میں آئی ہوئی ہے، اس کے علاوہ جو بھی اسلامی فرقے ہیں وہ سب گمراہ اور شرک کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جب کہ یہ سارے استعماری سازشوں اور اسلامی دشمنی میں سرانجام دیا گیا اور ظاہرا اسلام کو بدنام کرنے لیے اللہ اکبر کی صدائیں بلند کی گئیں۔
ان کی فکری پستی اور عقیدتی انحراف کی علامات اور نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ عمدا مسلمانوں کی قبروں کو منھدم اور سطح زمین کے برابر کرنے کے قائل ہیں چاہیے وہ جنت البقیع ہو، یا کوئی اور قبرستان، وہ قبروں کے نشانات کو مٹانے، لوگوں کو قبروں کی زیارات کرنے سے روکنے، اور مقدس مقامات کی توہین اور ہتک حرمت کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں، اسی غلط عقیدہ کی وجہ سے ۱۲۲۰ ہجری میں مدینہ منورہ پر یلغار کیا، ان کے محافظین کو قتل، مقدس آثارِدینیہ کو منہدم، اور عظیم اسلامی تاریخی درسگاہوں کو کو تباہ کردیا۔ اس ناپاک اور مذموم مقاصد پر مشتمل حملہ آور ہجوم نے مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی نہیں بخشا، وہاں پر موجود تبرکات، قیمتی اشیاء، جواہرات کو لوٹ لیا، اور بقیع میں موجود تمام مقدس مقامات کو منھدم کردیا، من جملہ چار معصوم اماموں کے مقدس مزارات کو بھی تباہ کردیا۔ اسی طرح ایک اور تخریبی حرکت اور دھاوا سن !۱۳۴۴ ھجری میں بھی دہرایا گیا، اور پہلی تخریب کاری کے بعد جو مقدس مقامات دوبارہ سے تعمیر کی گئی تھی انہیں پھر سے منھدم کرکے سطح زمین کے برابر کردیا ۔یہاں تک مسجد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبہ اور ضریح مبارک کو منھدم کرنے کی دھمکی مسلسل دی گئی اور ابھی تک دی جارہی ہے، اگر باقی مسلمانوں کے رد عمل کا خوف نہ ہوتا تو شاید ابھی تک منھدم کرچکے ہوتے۔
اس بنا پر علماء اسلام نے آٹھ شوال کو یوم الھدم کے عنوان سے یاد کیا ہے اور یہ مسلمانوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ وہ ہمیشہ مجالس عزا میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں اور ہر سال آٹھ شوال کو مجالس کے انعقاد اور مرثیہ خوانی کے ذریعے آئمہ بقیع کی یاد مناتے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ وہ وقت جلد آئے کہ جب مزارات کی تعمیر نو کا مطالبہ عملی ہو سکے۔